اسلام کا نظام حیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام نظامِ زندگی کی بنیاد
لا الہ الا اللہ۔(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے) اسلامی عقیدہ کے رُکنِ اوّل۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی کلمہ شہادت۔۔۔۔۔کا پہلا جزو ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ بندگی و عبادت کے لائق صرف ایک اللہ ہے۔
"مُحمّدرسول اللہ" اس کا دوسرا جزو ہے اور اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس بندگی کی کیفیت اور اس کا طریقہ صرف رسول اللہﷺ ہی سے حاصل کیا جائے گا۔
مومن اور مسلم کا دل وہ دل ہے جس کی گہرائیوں میں کلمہ اپنے دونوں اجزاء سمیت پوری طرح جاگزیں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں شہادتوں کے بعد ایمان کے جتنے ستون اور اسلام کے جتنے ارکان ہیں وہ دراصل ان شہادتوں ہی کے تقاضے میں پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ملائکہ پر ایمان، اللہ کی کتابوں پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان، آخرت پر ایمان، تقدیر خیر و شر پر ایمان، اسی طرح نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج، اور پھر حدود، تعزیرات، حلال و حرام، معاملات، قوانین، اسلامی ہدایت و تعلیمات ان سب کی اساس اللہ کی عبودیت پر استوار ہوتی ہے۔اور ان سب کا منبع وہ تعلیم ہے جو رسول اللہﷺ نے اپنے رب کی طرف سے ہم تک پہنچائی ہے۔
اسلامی معاشرہ وہ معاشرہ ہے جو کلمہ شہادت اور اس کے تمام تقاضوں کی عملی تفسیر ہو۔ اگر یہ کلمہ اور اس کے تقاضوں کی کوئی جھلک معاشرے کی عملی زندگی میں نہ پائی جاتی ہو تو وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے۔ گویا کلمہ شہادت (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) ایک ایسے مکمل نظام کی بنیاد ٹھہراتا ہے جس پر امت مسلمہ کی زندگی اپنی تمام تفصیلات اور ضروریات سمیت تعمیر ہوتی ہے۔ اس بنیاد کے قیام سے پہلے زندگی کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر اس بنیاد کے ما سوا کسی اور بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے یا اس بنیاد کے ساتھ کسی اور بنیاد کو یا متعدد خارجی بنیادوں کو بھی شامل کر کے زندگی کی تعمیر کی کوشش کی جائے تو ان کے نتیجے میں قائم ہونے والے معاشرے کو اسلامی زندگی کا نمائندہ کسی طرح بھی نہیں کہا جا سکے گا۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے
"حکم صرف اللہ کا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے۔ یہی دینِ قیم (ٹھیٹھ اور سیدھا طریق زندگی) ہے
۔" یوسف 40:12
"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔" النساء 80:4
یہ مختصر، اصولی اور فیصلہ کن بیان دین حق اور اسکی عملی تحریک سے تعلق رکھنے والے بنیادی مسائل کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ کرنے میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔
اولاً: یہ "مسلم معاشرے کی فطرت" کے تعین میں ہماری رہ نمائی کرتا ہے
ثانیاً: "مسلم معاشرے کے طریقہ تعمیر" کی نشاندہی میں ہمیں اس سے مدد ملتی ہے
ثالثاً: ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اسلام نے جاہلی معاشروں کے ساتھ نمٹنے کے لیے کیا طریق کار تجویز کیا ہے۔
رابعاً: وہ یہ تعین کرتا ہے کہ انسانی زندگی کے عملی صورتِ حال کو بدلنے کے لیے اسلام کا ضابطہ کار کیا ہے۔
یہ تمام مسائل وہ ہیں جو قدیم زمانے سے لے کر آج تک اسلامی تحریک کے نظام کار میں نہ صرف اساسی اہمیت کے حامل رہے ہیں بلکہ بڑے نازک اور فیصلہ کن سمجھے جاتے رہے ہیں۔
READ MORE:
بابا فرید الدین گنج شکر
READ MORE: