بابا فرید الدین گنج شکر
خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مرید بابا فرید الدین گنج شکر ایک مرشدِ کامل تھے, جن کے روحانی اثر اور عمل نے نبی کامل کے ایک مقبول امتی کے طور پر, لاکھوں افراد کو روحانی انوار کے ساتھ ساتھ اسلامی مشن کی سادگی، قناعت، کشادہ دلی، اور انسانی خدمت کی ہمدرد تعلیمات کا عملی نمونہ بھی فراہم کیا۔
برصغیر، خاص طور پر پنجاب میں، ان کی تعلیمات نے انسانیت، محبت، اور اخوت کو فروغ دیا اور لوگوں کو نفسِ امارہ کی منفی تحریکات کو دبا کر, اسے نفسِ مطمئنہ میں بدلنا سکھایا، یہاں تک کہ بابا گرونانک جیسی مقبول شخصیات کو بھی توحید و روحانیت کے اندرونی سفر میں رہنمائی فراہم کی۔ ہر مذہب، رنگ، اور نسل کے درمیان خدا و مخلوق کی محبت کا پیغام عام کر کے, انہوں نے اپنے دائرۂ کار میں انسانیت کو روحانی اکٹھ اور مرکزیت عطا کی۔
انفرادی طور پر دیکھا جائے تو بابا فرید ایک باکمال بزرگ تھے۔ ان کی روحانی گہرائی، اثر انگیزی، اور عشقِ حقیقی کے ارفع ادراک یا فنا فی اللہ سے حاصل ہونے والی روحانی منزل میں مضمر ہے۔ ان کی نظر کے فیضان نے, بے شمار دلوں کو محبت، عاجزی، اور خدا سے تعلق کی حقیقت سے روشناس کرایا۔ ان کی تعلیمات اور فیض نے چشتی سلسلے کی لڑی میں پروئے ہوئے روحانی طریقوں کے ذریعے, برصغیر کے افراد کو پاکیزگی، اخوت، اور ٹھہراؤ کا درس دیا۔
SEE FULL DOCUMENTARY VIDEO 📸 CLICK HERE
اسلامی تصوف کی روشنی میں صاحب کمال بزرگ وہ ہوتا ہے, جو ماورا میں قائم دربارِ نبی ﷺ میں قبول و مقبول ہو جائے، جو ماورا کی آخری منزل پر لامکانی روح کے پرتو سے, خدا کے بے حجاب جلوے کے انوار کا، مقدور بھر مشاہدہ کر کے، ان انوار سے اپنا تعلق برقرار رکھے، اور جس کی عقل اس کی بیدار روح کے تابع کر کے برقرار رکھی جائے۔
وہ ایسا شخص ہوتا ہے، جو فنا کی منزل سے آگے بڑھ چکا ہو، مگر تا دمِ رخصت، فانی کائنات سے، عقلی و جسمانی طور پر رابطے میں رہے، اور جس کا روحانی فیض رخصت کے بعد بھی جاری رہے۔ جس کی روح اور قلب، انوارِ ربانی سے اس قدر منور ہو جائیں، کہ وہ دوسروں کے قلب میں جھانک کر، ان کی روحانی تسکین و تشفی کر سکے۔ جس کی دوا اور دعا دونوں ہی پرتاثیر ہوں۔
ایسا شخصجب طلب سے عطا کی منزل پا لیتا ہے، تو روح سے روح اور قلب سے قلب کا تعلق قائم کرتے ہوئے، وحدت کی حقیقت کے اجالے اپنے آس پاس بانٹنا اس کا خاصہ بن جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے اسے دین کی حقیقت اور علمِ لدنی کے خزانے عطا کیے جاتے ہیں۔ ایسا بزرگ عوام میں ایمانِ توحید کی گہرائی پیدا کرتا ہے، دلوں کی دھڑکنوں کو صدائے “کن فیکون” سے روشناس کراتا ہے، اور سالکوں کے لیے اعلیٰ روحانی مدارج کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
وہ کہیں عقل میں وحدانیت کے “علم الیقین” کو راسخ کرتا ہے، اور کہیں قلوب میں “حق الیقین” اور “عین الیقین” کی منازل آسان بناتا ہے۔ ایسے فرد پر عطا سے استغراق کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اور وہ گاہے بگاہے اس دروازے سے لامکانی گہرائی میں داخل ہو کر، استغراق کے ذریعے گہرے ادراکات سے جُڑتا رہتا ہے، اور پھر زمان و مکان کی حد میں رہتی خلق کی رہنمائی کے لیے، اس وجدانی کیفیت سے واپس بھی آتا رہتا ہے۔
جو افراد دنیا سے رخصت تک، انوار حق کے وحدتی مشاہدے کے استغراق میں، دوئی پر قائم مجازی دنیا کو تیاگ دیتے ہیں، اور دنیا کی ذمہ داریوں سے تعلق توڑ کر، اپنی روح کے ذریعے قلب پر وارد ہونے والے، ذات و صفاتِ ربانی کے جلوے میں مکمل محو ہو جاتے ہیں، اور اپنی عقل سلب کروا لیتے ہیں، وہ “مجذوب” کہلاتے ہیں۔
اور جو قربانی دے کر خدائی جلووں کی محویت کو عارضی طور پر چھوڑ کر، اور اکائی کی جہتوں کے ادراک کا انعام پا کر بھی، عقل اور دوئی کی کشٹ اختیار کرتے ہیں، اور عالمِ مجاز میں عوام پر اپنی توجہ اور ان سے رابطہ برقرار رکھتے ہیں، وہ سخی افراد صاحبِ کمال بزرگ کہلاتے ہیں۔
بابا فرید کی کامیابی کا راز نبی کریم ﷺ کے اخلاق حسنہ کی پیروی میں پوشیدہ ہے۔ انسانی کی عزت،حسنِ اخلاق، نرم روی، اور خدمتِ خلق میں مضمر ہے، جو دلوں کو جیت کر ایمان کے ساتھ معاشرے میں محبت، رواداری اور سلوک کو فروغ دیتی ہے۔
صاحب کمال بزرگ کی پہچان کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوتی۔ ایسا شخص مخلوق سے تو جڑا رہتا ہے، لیکن اس سے بےغرض بھی رہتا ہے۔ جو لوگ طاقت، جبر اور استحصال پر انحصار کرتے ہیں، یا وہ جو اللہ کے حقوق قائم کرنے کے نام پر انسانوں کے حقوق کم کرتے ہیں، اور نظریاتی یا علمی اختلااف پر انسانوں کو انسانیت کے شرف سے گرا دیتے ہیں، وہ صاحب کمال نہیں ہوتے۔
ایسی شخصیات عالم بن کر بھی ظالم ہی رہتی ہیں، چاہے وہ یا ان کے ہم خیال جتنے مرضی بلند بانگ دعوے کریں۔ روحانی مدارج انہی لوگوں میں بانٹے جاتے ہیں، جو ہمدرد ہوتے ہیں اور تمام انسانوں کے لیے آزادی، سماجی انصاف، احترام، آسانی اور مساوات کی حمایت کرتے ہیں۔
مذہبی، روحانی یا معاشرتی حیثیت میں غلبہ یا بلند مقام حاصل کرنے کی خواہش، خودغرضی اور اخلاقی انحطاط کی علامت ہے، جو دنیا میں سلامتی کی جگہ استحصال کو بڑھاتی ہے۔ ہمیں دوسروں سے عزت، فرمانبرداری یا برتر پہچان کی کیوں ضرورت ہو؟ کیوں اپنے عقائد یا روحانی مدارج پر تقدس و احترام کا عوام سے مطالبہ کریں؟ کیوں دوسروں کو اپنے علم و اختیار کے سامنے خوف یا کمتری کا نشانہ بنائیں؟ کیوں کسی کو خود سے کمتر انسان گنوائیں؟
درود و سلام کی کثرت سے ورد اور عشق رسول کی اساس سے فنا فی الرسول کی منزل پر پہنچ کر، اور رحمت اللعالمین کی رمز کو جان کر، جتنا زیادہ ہم انسانیت کے قریب اور تعصبات سے دور ہوں گے، اللہ اور اسکے رسول کے لیے اتنے ہی معتبر انسان بنیں گے۔
بعض لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ تصوف کا پیغام اخترا ہے، شرک کا رستہ یا بدعت ہے، اور صریح گمراہی ہے۔ قرآن و اسلام کی جو تشریح پہلے سے کر دی گئی، یا جو انہیں سمجھ آئی وہ کافی ہے۔ ابن عربی، امام غزالی، رومی اور ان کے بعد آنے والے اولیا کرام نے تو کوئی نیا مذہب بنا لیا ہے، جس کا ان کی سمجھ میں آنے والے اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
میرا ان سے سوال یہ ہے کہ کیا وہ سینکڑوں سال پہلے کے زمانے میں رہتے ہیں؟ کیا خاتم المرسلین کی نبوت کا فیضان اور قرآن کا پیغام بس وہیں تک کے لیے تھا؟ کیا نبی کی رخصت کے بعد وقت رک گیا ہے۔ کیا زمانے اور کائنات کی تبدیلی کی فطرت اور وقت کی بدلتی جہت رک گئی ہے؟
کیا قران مجید، روح محمد کی طرح ہمیشہ زندہ جاوید رہنے والی ماورا سے جڑی کتاب نہیں ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اس کے پیغام کو کسی مخصوص فرد یا گروہ کی منشاء کے مطابق کیسے محدود کر لیا جائے؟ کیا اس کا کسی مخصوص وقت کے لیے تفہیم کردہ انطباق روح کائنات کی روانی کو روک سکا ہے؟
اس معاملے کا حل تو تصوف ہی فراہم کرتا ہے جو کہ سراسر اسلام کی روح سے جڑا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مواقع پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن سے لوگوں کے حاصل کردہ معانی بھی ان کے ایمان کی منزل، فہم کی محدویت اور ان کی نیت کے مطابق ایک آزمائش ہوتے ہیں۔
قرآن مجید، فرقان حمید کا کلام ہر فرد پر مختلف انداز میں اثر انداز ہوتا ہے، اور اس سے حاصل کردہ مفہوم ہر انسان کے دل کی حالت اور نیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ قران کا اعجاز ہے کہ اس کی اساس تو ماورا کی وحدت کے سکوت اور تکمیلیت میں ثبت ہے لیکن یہ ماورائی تحریک سے جنم لیتے، جاری و متحرک جہان میں رجوع کرتے ہر فرد کے لیے ایک متحرک اور انفرادی حجت بن جاتا ہے۔ شرط صرف اتنی سی ہے کہ اسے نبی کریم سے منسوب الہامی کتاب تسلیم کر کے اسے انفرادی طور پر غیب یا ماورا سے رشتہ استوار کرنے کا ذریعہ بنایا جائے۔
اللہ کریم نے سورہ الاسراء میں فرمایا
"وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّٰلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا"
ترجمہ: اور ہم قرآن سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے، اور ظالموں کے لیے یہ صرف نقصان ہی بڑھاتی ہے۔
اب جنہوں نے کبھی قرآن کو معتبر جان کر اس سے رجوع ہی نہیں کیا تو یہ انہیں کیسے نقصان پہنچائے گا۔ اس آیت سے تو یہی بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کا کلام مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے، لیکن جو لوگ اپنی ذاتی خواہشات یا نفس امارہ کی پیروی کرتے ہیں، یا جو ضدی ہوتے ہیں، جن میں رحم و ہمدردی اور تفہیم کی جگہ غضب زیادہ ہوتا ہے۔
ان کے لیے قرآن کا پیغام محض نقصان کا باعث بنتا ہے۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ قرآن کا اثر، اس کے معنی اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ، مکہ مکرمہ کے باسیوں کے لیے ہی نہیں اس سے رجوع کرنے والے ہر دور اور ہر علاقے میں رہتے ہر فرد کے لیے ایک امتحان ہے، اسے سمجھ میں آتی حجت ہے۔
سورہ محمد میں فرمایا
"أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا"
ترجمہ: "کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے ہیں؟"
اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسانوں کو قرآن پر تدبر اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ جو لوگ قرآن کو حکمت سے سمجھ کر عمل کرتے ہیں، وہ کامیاب ہیں، جبکہ جو اس کے جوہر پر غور نہیں کرتے، ان کے دلوں پر تالے پڑ جاتے ہیں، جو ان کی روحانی آزمائش میں ناکامی کی علامت ہے۔
ان آیات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کا کلام خود ایک آزمائش ہے۔ جو لوگ نبی رحمت سے روحانی تعلق کے فیض سے اس پر غور کرتے ہیں، غیب پر ایمان رکھتے ہیں، اور روح کی پاکیزگی کے ساتھ اس کے گہرے روحانی مفہوم اور پنہاں حکمت کا اپنے حالات اور زمانے کے مطابق، قلب میں ادراک پا لیتے ہیں، وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔
جبکہ جو لوگ اپنی انا یا نفس امارہ کی پیروی کرتے ہیں، یا وہ جو اسے جامد کرتے ہیں، اور اس سے فتنہ فساد نکالتے ہیں، وہ اس کی آزمائش میں ناکام رہتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کے معانی کی گہرائی اور اللہ سے تعلق کا ادراک، انسان کی روحانی بالیدگی اور قلبی صفائی پر منحصر ہوتا ہے، جو رسالت نبی پاک کے روحانی فیض سے، ہر زمانے کے ہر فرد کو ایک منفرد معنی فراہم کرتا ہے۔
تصوف قلوب کو ایمان بالغیب یا ماوراء میں پوشیدہ خدائے واحد کی ایسی تصدیق فراہم کرتا ہے جسے پھر عقل کی کسی بھی دلیل سے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اور یہ کامیابی اسلامی تصوف یا عرفان کی انفرادیت، ہمہ گیریت, اور اصلاحی جہتوں کی تائید ہے۔
"لا إله إلا الله محمد رسول الله"
اسلام کا اصل یا اس کی روحانیت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ درویش اپنے سلوک، عاجزی، رحم، صبر، سادگی اور پرخلوص عمل سے روحانی رفعت حاصل کرتے ہیں نہ کہ تحقیر، طاقت، خوف، جبر، جمود یا تسلط کے بےاثر ہوتے راستوں کے ذریعے۔ جو شخص اپنے دل میں اللہ کی رضا اور تمام مخلوق کی بھلائی کی مخلصانہ خواہش رکھتا ہے، وہی شرف کا حامل ہوتا ہے۔
عالم مجاز میں قضا و قدر کے خدائی فیصلوں سے جڑا درویش چاہے دنیاوی طور پر صاحب حیثیت ہو یا مالی طور پر غریب ہو، وہ سماجی حیثیت اور ناپ تول کے ترازو کے باٹوں سے مبرا ہوتا ہے، عطائے ربانی سے صاحب کمال ہوتا ہے۔