واخان پٹی

choudhury110
By -
4 minute read
0

 ‏صرف چند کلومیٹر کی اس 
"واخان پٹی" پر اگر پاکستان اپنا کنٹرول حاصل کر لے تو پاکستان ۔براستہ تاجکستان۔۔روس(ماسکو) تک زمینی رسائی حاصل کر سکتا ہے۔



چین،تاجکستان،افغانستان اور پاکستان سے یہ گھری پٹی

پاکستان کی"نہر سویز"یا"پانامہ کینال"بن سکتی ہے۔


  واخان راہداری کو وہی اہمیت حاصل ہے جو سمندر میں نہر پانامہ ،نہر سوئیز کوحاصل ہے واخان کی پٹی کو انگریزوں نے افغانستان کی دُم بھی کہا ہے واخان راہداری پاکستان کے انتہائی شمالی علاقے، چینی سنکیانگ، افغانی بدخشاں اور تاجکستان کے درمیان واقع ہے یہ اصل میں ایسا پہاڑی علاقہ ہے جو ان ممالک کے درمیان تنگ دروں پر مشتمل ہے اس پورے علاقے کو واخان راہداری، واخان پٹی یا واخان کوریڈور کہتے ہیں یہاں رہنے والے لوگ وخی ہیں جن کی زبان بھی وخی ہے لوگوں کی ثقافت مشترکہ ہے اور آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں


FEDERAL JOBS,FIA JOBS,NAIB JOBS,    APPLY NOW 


اس پٹی کی لمبائی مشرق سے مغرب تک 310 کلومیٹر اور چوڑائی 15 کلومیٹر ہے مشرق کی طرف کوہ بابا تنگی کے دامن میں چوڑائی سکڑ کے 10 کلومیٹر رہ جاتی ہے یہی علاقہ ہے جو سوختہ ،رباط اور سوماتاش کے راستے چینی صوبہ سنکیانگ سے مل جاتا ہے، سرحدِ واخان کا یہ حصہ پامیر میں افغان کرغیز علاقے کے ساتھ متصل واقع ہے۔ واخان کا دریا آبِ پنجہ کہلاتا ہے جو واخجیر گلیشیر سے نکلتا ہے اور روشن کے مقام پر دریائے آمو سے جاملتا ہے یہ دونوں دریامشرق سے مغرب کی طرف بہتے ہیں۔ واخان کے شمالی حصے کو پامیر کہتے ہیں جہاں واخی اور پامری قوم آباد ہے۔ 

پاکستان کے ہنزہ سے اوپری علاقے گلمت، پسو، شمشال، سوست اور چہ پرسان  کا علاوہ والی ثقافت کا حامل ہے۔ زمانہ قدیم میں ان ملکوں کی سرحدوں پر آباد قبائل اس راہداری کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے، پاکستان کو ملانے والا دروازہ پاس افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے بعد تجارت کیلئے بند ہوگیا لیکن چہ پرسان  اور واخان کے درمیان تعلق برقرار رہا اور اس کی وجہ ارشاد پاس جیسے چند قدیم راستے ہیں جن پر لوگ سفر کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو ایک دوسرے ملک میں جانے پر کوئی سرحدی پابندیاں نہیں ہیں۔

واخان راہداری کا علاقہ جہاں ختم ہوتا ہے اس سے کچھ اوپر تاجکستان اور کرغیزستان کی سرحدی پٹی شروع ہوجاتی ہے جس میں واقع “پامیر ہائی وے” کو دنیا کی خطرناک، ویران اور اکیلی ترین سڑک کہا جاتا ہے۔ یہ سڑک افغانستان، تاجکستان، ازبکستان اور کرغیزستان میں واقع ہے۔ 

وسطی ایشیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کرغزستان کے شہر اوش سے تاجکستان کے شہر دوشنبہ تک 1200 کلومیٹر طویل سڑک دنیا کے اعلیٰ ترین مناظر بھی پیش کرتی ہے جس کے دوران ویران دشت، بلند و بالا صحرا، برف سے ڈھکی چوٹیاں اور 4000 میٹر سے بلند دروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں انسانوں سے زیادہ برفانی چیتوں اور مارکوپولو شیپ جیسے نایاب جانوروں کی بود و باش ہے۔

سلسلہ ہائے کوہ پامیر کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے اور یہاں کئی ایسی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی7000 ہزار میٹر سے متجاوز ہے۔ دنیا میں ہمالیہ، قراقرم، اور ہندوکش سلسلوں کو چھوڑ کر کہیں اتنے بلند پہاڑوں کی بہتات نہیں ہے۔ یہ علاقہ زلزلوں کی آماج گاہ ہے جس کے باعث یہاں کے پہاڑی سلسلے غیر مستحکم ہیں اور مٹی کے تودے گرنا روزمرہ کا معمول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنسنی کے متلاشی موٹر سائیکل سوار پامیر ہائی وے کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

یہ سڑک 19ویں صدی کے وسط میں روسیوں نے اس وقت تعمیر کی تھی جب برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان وسطی ایشیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے 'گریٹ گیم' اپنے عروج پر تھی۔ اسی سڑک سے شاہراہِ ریشم کی ایک حصہ بھی گزرتا ہے اور آپ اب بھی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر قدیم قلعوں کے کھنڈر دیکھ سکتے ہیں جنھیں تجارتی گزرگاہ کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

20ویں صدی میں سوویت یونین نے سڑک کی مرمت کروائی لیکن اب بھی اس کے بڑے حصے بجری اور کچی مٹی پر مشتمل ہیں اور پکے حصے کب کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔

سڑک کا بڑا حصہ اس علاقے سے گزرتا ہے جسے واخان کی پٹی کہا جاتا ہے۔ سڑک خاصی دور تک افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر واقع تند و تیز دریائے پنج کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر اسماعیلیوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔یہ علاقہ قدرتی طور پر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے تھا ۔ اب پاکستانی افواج  یہاں تک ٹی ٹی پی ایل اور ان کے سہولت کاروں کا پیچھا کرتے ھوے پہنچ گے ھیں ۔ 


READ MORE BLOG'S    CLICK HERE 

Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

Followers

Pages - Menu

Comments

{getContent} $results={3} $type={comments}
Today | 9, April 2025