یہ ڈاہرانوالہ چشتیاں موڑ ہے۔۔۔ جہاں لاہور سے جاتے ہوئے پرسوں رات گزرا۔۔۔ اور ایک دم کئی یادیں ذہن میں آن دمکیں۔۔۔
یہ وہ موڑ ہے جہاں سے میں جب اپنی رکشہ ریڑی پر برف لینے جاتا چشتیاں تو آتے ہوئے اس موڑ پر رک کر چائے پیا کرتا تھا اور بھٹی پر ہاتھ گرم کیا کرتا جو ڈاہرانولہ سے آتے آتے جم جاتے تھے۔۔۔ صبح کے تین چار بجے سردیوں میں انہی دنوں میں چشتیاں سے برف لینے جایا کرتا تھا(سردیوں میں برف کا کمرشل یوز ہوتا مچھلی والے، بیکری والے گنڈیریوں والے لیا کرتے)اور شدید سردی کی وجہ سے ہاتھ پیر سن ہو جایا کرتے تھے۔۔۔ چشتیاں پہنچ کر اس موڑ پر ریڑھی سائیڈ پر لگانی اور بھٹی پر ہاتھ گرم کرنے چائے پینی پھر فوجی کی فیکٹری جانا آگے اسی روڈ پر شہر سے۔باہر ہی دودھ والے چیلر کے ساتھ تھی جو۔۔ وہاں سے چھ بلاک برف کے لوڈ کرنے قینچی(شکنجے) سے کھینچ کھینچ کر۔۔۔ انہیں باندھنا اور واپس۔۔۔ اس وقت یہاں موڑ سے بھی روڈ کافی خراب ہوتا تھا۔۔۔تو اس ریڑھی رکشے پر لدے ہوئے چھ بلاک یعنی کوئی بیس سے بائیس من وزن لے کر گزرنا بھی اللہ توکل ہی ہوتا تھا۔۔۔
برف نکالتے اور لوڈ کرتے ہوئے۔۔ کپڑے گیلے ہو جاتے تھے سارے ٹھنڈے پانی اور برف سے۔۔ پھر ویسے ہی بھیگے بھیگے سردی میں آگے سے ٹھنڈی ہوا پیچھے ٹھنڈے برف کے بلاک اور گیلے کپڑے اور 25 کلو میٹر ریڑھی رکشے پر واپس جانا۔۔۔اس روڈ سے جو جگہ جگہ سے انتہائی خراب اور ٹوٹا ہوا تھا۔۔۔
پرسوں گزرتے ہوئے ایک دم سے فلیش بیک ہوئے وہ تمام مناظر ذہن سے اور آنکھیں نم ہو گئیں۔۔۔ کیونکہ وقت بدل چکا تھا۔۔۔ آج پھر میں اسی موڑ سے گزر رہا تھا۔۔۔لیکن اپنی ہنڈا سوک میں۔۔ جس میں چلتے گرم ہیٹر نے پورا کیبن اس سردی میں بھی گرما رکھا تھا،میں ایک باریک سی ٹی شرٹ میں جوتے اتار کر ریلیکس بیٹھا ڈرائیو کر رہا تھا۔۔۔ برابر والی سیٹ پر امی سکون سے آنکھیں موندیں آرام سے سوئیں ہوئیں تھیں۔۔۔ جو اُس وقت ساری ساری رات جاگتی رہتیں تھیں کہ ان کا بچہ اس موت کی سواری(ریڑھی رکشے) پر برف لینے گیا ہوا ہوتا تھا اتنی ٹھنڈ میں دوسرے شہر سے۔۔۔آج وہ سکون سے اپنے بیٹے کے ساتھ گاڑی میں سوئی ہوئیں جا رہیں تھی۔۔۔اور چہرے پر ایک شکن تک نہیں تھی۔۔۔
وہی راستے تھے۔۔ وہی جگہ۔۔ وہی وقت صبح کے دو تین۔۔ اور وہیں مہینے نومبر دسمبر۔۔۔ سب کچھ وہی تھا بس میرا وقت بدل چکا تھا رب تعالیٰ کی عطاء سے۔۔۔
آنکھیں نم ہوئیں۔۔ کہ اس وقت کو دیکھنے کے لیے بابا جان ساتھ نہیں تھے آج۔۔۔ جن کے ساتھ مل کر اتنی مشقتیں کی تھیں۔۔ جنہوں نے محنت کرنا سکھایا تھا۔۔۔ وہ اپنی تربیت کا پھل دیکھنے کے لیے آج موجود نہیں تھے۔۔۔جس جگہ پر بابا جان کے ساتھ سڑکوں پر محنتیں مشقتیں کی تھی۔۔ سائیکل گدھا گاڑی اور رکشہ ریڑی چلائے تھے۔۔۔ آج ان سڑکوں پر انہی راستوں پر کچھ لمحات تو ان کے ساتھ بنتے تھے۔۔۔ اپنی آرام دہ گاڑی میں۔۔ اس موڑ سے اپنی سوک میں یوں بابا جان کو ساتھ بٹھا کر گزرتا تو ان کا سینہ اتنا چوڑا ہو جاتا کہ گاڑی چھوٹی پڑ جاتی۔۔۔ اور میرے دل میں کوئی حسرت باقی نہ رہتی۔۔۔