قطر یا سعودی عرب: اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی میں پہل کون کرے گا؟

choudhury110
By -
9 minute read
0

قطر یا سعودی عرب: اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی میں پہل کون کرے گا؟

قطر اسرائیل تعلقات، سعودی عرب اسرائیل معاہدہ، ابراہم معاہدہ، مشرق وسطیٰ سفارتی تعلقات، حماس اسرائیل جنگ بندی، قطر خارجہ پالیسی، سعودی عرب فلسطین موقف، ٹرمپ خارجہ پالیسی, اسرائیل عرب تعلقات



گذشتہ ہفتے قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان بن جاسم التھانی نے  دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں اپنے دورہ اسرائیل کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔


قطری وزیر اعظم کے پہلی مرتبہ  پھر صدر ٹرمپ کے سابقہ دور میں شروع ہونے والے 'ابراہم معاہدے' (جس کے تحت بہت سے عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں) پر بحث جاری ہے۔

SEE FULL VIDEO 📸   CLICK HERE 
 
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہرین کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی ایک مرتبہ پھر توجہ اِسی بات پر ہو گی کہ سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک کو کیسے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی راہ پر لایا جائے۔

اگرچہ قطر نے سنہ 2020 میں اپنے دیگر خلیجی ہمسایہ ممالک جیسا کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات کی طرح اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے ہیں تاہم درحقیقت قطر وہ پہلا خلیجی ملک تھا جس نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط بنائے تھے۔
قطر کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم ہونے سے قبل اُس وقت کے قطر کے وزیر اطلاعات حماد بن عبدالعزیز نے سنہ 1995 میں قتل ہونے والے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کی آخری رسومات میں شرکت کی تھی۔ اسحاق رابین کی آخری رسومات میں شرکت کرنے والے وہ عرب ممالک کے واحد نمائندے نہیں تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عمان کی نمائندگی اُس وقت کے عمان کے وزیر مملکت خارجہ امور یوسف بن علوی نے کی تھی۔

قطری وزیر اطلاعات کی سابق اسرائیلی وزیراعظم کی آخری رسومات کی شرکت کے بعد کچھ راہ ہموار ہوئی اور اس سے اگلے ہی برس یعنی سنہ 1996 میں اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز نے قطری دارالحکومت دوحہ کا دورہ کیا تھا۔

قطر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے ان دو اہم دوروں کے بعد قطر، اسرائیل تجارتی دفتر قائم کیا گیا جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینا تھا۔


اس کے بعد آنے والے برسوں میں دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان متعدد مواقع پر بہت سی ملاقاتیں ہوئیں۔

لیکن اس تجارتی دفتر کو سنہ 2001 میں دوحہ میں ہونے والی اسلامی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ دفتر کے بند کرنے کے فیصلے کو عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے لیے پیغام کے طور پر دیکھا گیا تھا اور یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں لیا گیا تھا جب اسرائیل فلسطین کے خلاف جارحیت میں ملوث ہوا تھا۔

سابق قطری وزیر خارجہ شیخ حمد بن جاسم الثانی ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ قطر، اسرائیل تجارتی دفتر کو اس لیے بھی بند کیا گیا تھا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا سالانہ حجم دو لاکھ ڈالر سے زیادہ نہیں تھا۔

تاہم سنہ 2011 میں شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد مشرق وسطیٰ کے لیے معاملات نے ایک مختلف رُخ اختیار کیا۔ خالد مشعل سمیت حماس کے چند اہم رہنما جو شام میں مقیم تھے انھوں نے شام کو خیرباد کہہ کر دوحہ میں رہائش اختیار کر لی۔

اس مختلف رُخ نے قطری سفارتکاری کو ایک نئی جہت بخشی اور یہاں سے اس کا اسرائیل اور حماس کے درمیان بطور ثالث کردار آگے بڑھا جو حالیہ دنوں میں جنگ بندی کے معاہدے اور اس کے نتیجے میں فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں اور یرغمالیوں کی رہائی کی صورت میں پوری دنیا نے دیکھا۔
اگر واقعات کی ترتیب پر ایک سرسری نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملے کے دو ماہ بعد اسرائیلی صدر اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے درمیان وہ مصافحہ ہوا جسے اسرائیلی میڈیا نے تاریخی قرار دیا۔ یہ مصافحہ اُس وقت ہوا جب دونوں ممالک کے رہنما دبئی میں ہونے والی موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شریک تھے۔

اگرچہ یہ مصافحہ ایک وقتی اقدام معلوم ہوتا تھا لیکن آگے چل کر اس کے بڑے سیاسی اثرات بھی نظر آئے۔ یہ اس بات کی جانب بھی اشارہ تھا کہ قطر اسرائیل کو 'ازلی دشمن' کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور ہمہ وقت اُس کی طرف 'ہاتھ بڑھانے' کو تیار ہوتا ہے۔ آگے چل کر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ دوحہ کی میزبانی میں ہونے والے جنگ بندی کے مذاکرات میں اسرائیلی رہنماؤں سمیت موساد کے حکام نے بھی قطر کا متعدد مرتبہ دورہ کیا۔

چند روز قبل ڈیووس فورم کے موقع پر قطری وزیر اعظم اور اسرائیلی صدر کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں اسرائیلی صدر نے جنگ بندی کے مذاکرات میں قطر کے کردار کا شکریہ ادا کیا۔

اور اب سب سے قابل ذکر پیش رفت یہ ہے کہ قطری وزیر اعظم نے  چوہدری 110 کو ایک انٹرویو دیا ہے اس انٹرویو کے دوران انھوں نے ایک سوال کے جواب میں اسرائیل کا دورہ کرنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔

اس انٹرویو میں قطری وزیراعظم الثانی سے پوچھا گیا کہ آیا وہ جلد ہی اسرائیل کا دورہ کریں گے یا نہیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ 'یہ اس بات پر منحصر ہے کہ مستقبل میں حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں، ہم (غزہ کے) پرامن حل کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور خطے میں امن کے لیے ہم کچھ بھی کریں گے۔'

بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر بُو دیاب نے چوہدری 110 سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قطر اور اسرائیل کے تعلقات کا اس نہج پر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سنہ 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے کے بعد سے اسرائیلی حکام متعدد مواقع پر قطر کے دورے کر چکے ہیں۔

اُن کے مطابق اگرچہ قطر نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان تو نہیں کیا لیکن قطر کا رویہ اسرائیل کے لیے 'کُھلے پن کے اظہار' پر مبنی ہے۔

انھوں نے کہا ڈاکٹر بو دیاب کی رائے ہے کہ قطر کو یقین ہے کہ ٹرمپ کا موجودہ دور ایک 'طوفانی دور' ہو گا، اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوحہ کے پاس دو آپشن ہو سکتے ہیں: یا تو وہ ٹرمپ انتظامیہ کے سامنے 'جُھک جائیں' یا عرب قانونی حیثیت کے دائرے میں رہتے ہوئے 'کھلے پن کے اظہار' جیسے اپنے عمل کا اظہار کریں۔

بو دیاب نے اس پورے عمل کو ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آمد اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی جانب سعودی عرب کو راغب کرنے کی امریکی خواہش سے منسلک کیا ہے۔

بو دیاب نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'امریکہ نے سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں یہ اشارہ دیا تھا کہ اگر قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان اپنی ثالثی کی کوششوں میں کامیاب نہ ہوا، تو امریکہ کے قطر کے ساتھ تعلقات متاثر ہو

سکتے ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ قطر کے اسلام پسندوں کے ساتھ تعلقات اور حماس، اسرائیل جنگ میں 'الجزیرہ' کے کردار کی وجہ سے امریکہ کو ہمیشہ قطر پر اعتراض رہا ہے۔

یہ تمام تر صورتحال مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی سٹیو وٹکوف کے ایک پریس انٹرویو میں کہی گئی بات سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس انٹرویو میں امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کو سعودی عرب جیسے عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے امکان کو ایک حیرت انگیز موقع سمجھتے ہیں۔

سٹیو وٹکوف نے اس بات کو مسترد نہیں کیا تھا کہ قطر جیسے دیگر اہم ممالک ابراہم معاہدے میں شامل ہوں گے۔

لندن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر فواز گرجز کا خیال تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے لیے سب سے اہم بات یہ ہو گی کہ وہ اس کام کو مکمل کریں جس کا آغاز انھوں نے اپنے سابقہ دور حکومت میں کیا تھا یعنی عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کروانا۔ ان کا کہنا تھا کہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے لیے یہ بہت ہی اہم ہو گا کہ اب بلآخر سعودی عرب میں ان ممالک میں شامل ہو جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں۔

ڈاکٹر فواز اس بات کو مسترد کیا کہ قطر سعودی عرب سے پہلے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لائے گا کیونکہ، اُن کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کا اس ضمن میں بڑا سٹریٹجک ہدف سعودی عرب ہے یعنی امریکہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں پہل کرے اور اس کے بعد قطر کی باری ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ 'عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ایران کے خلاف علاقائی اتحاد کے قیام کے منصوبے کا ایک لازمی حصہ ہے۔'

چوہدری 110 عربی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر فواز نے اس توقع کا اظہار کیا کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں امریکہ توجہ سعودی عرب پر مبذول ہو گی تاکہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات بحال کروائے جا سکیں۔
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب فلسطین ریاست کے قیام کی سنجیدہ کوشش کے بغیر کیسے یہ سب کر پائے گا۔

یاد رہے کہ امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف نے چند روز قبل کہا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی سعودی عرب کے لیے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کے عمل میں ایک بڑی سبیل ہو سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے راضی کرنے کی کوششوں کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ مصر اور اردن کی حکومتوں کو غزہ کے شہریوں کو قبول کرنے پر راضی کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے تاکہ غزہ کے مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔

اور اوپر بیان کیے گئے اِن حقائق کی بنیاد پر اور قطر کی خارجہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ دوحہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل سے دور ہے، چاہے ایسا سعودی عرب سے پہلے ہو یا بعد میں۔


Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)

Followers

Pages - Menu

Comments

{getContent} $results={3} $type={comments}
Today | 7, April 2025