How Stubborn is K2?
In 1953, American mountaineer George Bell, after failing to conquer K2, gave a peculiar statement. He referred to the mountain as "The Savage Mountain" and declared it impossible to summit. There are 14 peaks in the world that exceed 8,000 meters, five of which are in Pakistan, eight in Nepal, and one in China. During a British trigonometric survey in 1856, these five peaks in Pakistan were named K5, K4, K3, K2, and K1. Among them is K2, the world's second-highest and most dangerous mountain.
K2 is considered the deadliest because it claims more lives than Mount Everest, the world's highest peak. Initially, the biggest challenge in climbing K2 was the lack of a known route to the summit. The first attempt to conquer K2 was made in 1902 by Victor Wessely and his team. They tried to climb via the northeast ridge but, after 68 days of relentless effort, only managed to reach the base camp, 5,000 to 6,000 meters high. Upon returning, they remarked that neither humans nor beasts were harmed during the expedition, using the term "beast" for the mountain.
The second attempt in 1909 also failed, with the team unable to proceed beyond the base camp. Their leader, Duke, famously said, "K2 would never be climbed." A significant breakthrough came when American mountaineer Charles Houston discovered the route to K2 from Pakistan’s side, now known as the Abruzzi Spur. He described this route as the most practical and easiest path to the summit.
In 1939, Dudley Wolfe and his team became the first to reach 8,000 meters on K2, the site of the current Camp 4. However, as they advanced toward the summit, team members got lost on the mountain, forcing the team to retreat unsuccessfully. In 1953, Charles Houston led another expedition, joined by the renowned climber George Bell. However, tragedy struck again, with Bell losing a leg due to frostbite.
K2 was first successfully climbed on July 31, 1954, by Italian climbers Achille Compagnoni and Lino Lacedelli. They were supported by Pakistani climber Colonel Ata Muhammad and a porter from Hunza, Amir Mehdi, who carried supplies up to 8,000 meters. Unfortunately, Mehdi had to have one of his legs amputated due to frostbite after the expedition.
Exactly 23 years later, in 1977, Japanese climbers became the second team to conquer K2. Their expedition included around 1,500 Pakistani porters, as well as the famous Pakistani climber Ashraf Aman, who holds the distinction of being the first Pakistani to summit K2.
In 1986, Wanda Rutkiewicz, a Polish climber, became the first woman to successfully summit K2. Tragically, just eight hours after reaching the top, she lost her life during the descent, leading to the belief that K2 "takes revenge on women."
Over the years, climbers from various countries have attempted K2, with some achieving success and others falling victim to its fury. Three notable disasters on K2 gained worldwide attention, known as the "Three Major Disasters." The first occurred in August 1986, when 13 climbers died on the mountain. The second was in 1995 when six climbers lost their lives while descending after summiting K2. The third disaster was in August 2008, claiming the lives of 11 climbers. These tragedies have inspired several films.
کے۔ٹو کتنا ضدی ہے؟
1953 میں ایک امریکن کوہ پیماہ George Bell نے K-2 سے شکست کھانے کے بعد ایک عیجب و غریب بیان دیا۔اس نے اس پہاڑ کو The Savage Mountain کا نام دیا اور کہا کے اس پہاڑ کا سر کیا جانا ناممکن ہے۔اس دنیا میں 8000 میٹر کی کل 14 چوٹیاں موجود ہیں جن میں سے 5 پاکستان ،8 نیپال اور ایک چوٹی چائینہ میں واقع ہے۔ 1856 میں برٹیش سرکار نے ایک Trigonmetrical سروے کے دوران ان 5 چوٹیوں کوK5,K4,K3,K2,K1 کا نام دیا۔انھی پانچ چوٹیوں میں دنیا کی دوسری بلند ترین اور پہلی خطرناک ترین چوٹی K2
بھی شامل ہے۔
اسکو دنیا خطرناک ترین چوٹی اس لیے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس پہ مرنے والوں کی تعداد دنیا کی بلند تریں چوٹی ماوئنٹ ایوریسٹ سے کہیں زیادہ ہے۔شروع شروع میں K2 کو سر کرنے میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ K2 پہ جانے کا صیح راستہ کسی شخص کو معلوم نہ تھا۔K2 کو سر کرنے کی پہلی
EARN MONEY ONLINE DAILY 61$ TOP OFFER CLICK HERE
کوشیش 1902 میں Victor wessely اور اس کی ٹیم نے کی انہوں نے کے۔ٹو کو شمال مشرق کے ڈھلوانی راستے سے سر کرنے کی کوشیش کی لیکن 68 دن کی انتھک محنت کے بعد یہ لوگ صرف K2 بیس کیمپ یعنی 5000 سے 6000 میٹر بلندی تک ہی پہنچ سکے۔اس مہم سے واپسی پر انھوں نے صرف اتنا کہا کہ اس مہم میں نہ تو کسی انسان کو اور نہ ہی Beast کو کوئی نقصان پہنچا۔انھوں نے اس پہاڑ کے لیے Beast کا لفظ استعمال کیا۔K2 کو سر کرنے کی دوسری کوشیش 1909 میں کی گئی لیکن یہ لوگ بھی بیس کیمپ سے آگے نہ جا سکے۔واپسی پر ان کے ٹیم لیڈر Duke نے کہا K2 Would never be climbed یعنی کے۔ٹو کبھی سر نہیں ہو پاے گا۔کے۔ٹو کو سر کرنے میں سب سے اہم کردار ایک امریکن کوہ پیما Charles Houston نے ادا کیا۔اس کے۔ٹو کا پاکستان کی طرف سے جانے والا مغرابی راستہ جسے آجکل Abruzzi روٹ کہا جاتا ہے دریافت کیا۔اس نے کہا کہ کے-ٹو کو سر کرنے کا یہ راستہ سب سے آسان اور پریکٹیکل ہے۔
1939میں Dudly Wolfe اور اس کی ٹیم اس راستہ سے پہلی بار کے۔ٹو پر 8000 میٹر کی بلندی جہاں پہ آجکل کیمپ 4 ہوتا ہےاس تک پہنچے۔لیکن اس سے آگے کے۔ٹو کی چوٹی کی طرف جاتے ہوے ان کے ٹیم ممبرز اس پہاڑ پر کہیں کھو گئے اور ان کو ناکام واپس آنا پڑا۔1953 میں پھر ایک بار Charles Houston اور اس کی ٹیم نے K2 کو سر کرنے کی کوشیش کی لیکن ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو Dudly Wlofe کی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا۔مشہور زمانہ کوہ پیماہ George Bell بھی اس بار ان کے ساتھ تھے لیکن اس مہم میں ایک Frost Bite کی وجہ سے ان کو اپنی ایک ٹانگ کٹوانی پڑی۔K2 کو پہلی مرتبہ کامیابی سے کرنے کا سہرا اٹلی کے دو کوہ پیماوں کے سر جاتا ہے۔
انھوں نے پہلی مرتبہ31جولائی 1954 میں کے۔ٹو کو کامیابی سے سر کیا۔اس مہم میں ان کے ساتھ پاکستانی کوہ پیماہ کرنل عطا محمد اور ہنزا کا ایک پورٹر عامر مہدی بھی شامل تھا۔انھوں نے ان کوہ پیماوں کا سامان 8000 میٹر بلندی تک پہنچانے میں ان کی مدد کی تھی۔اس مہم سے واپسی پر عامر مہدی کو اپنی ایک ٹانگ کٹوانی پڑی۔
کے۔ٹو کو پہلی بار کامیابی سے سر کرنے کے ٹھیک 23 سال بعد جاپان سے آئے ہوئے کوہ پیماوں نے کے۔ٹو کو دوسری مرتبہ کامیابی سے سر کیا۔ان کی اس مہم میں تقریبا 1500 پاکستانی پورٹر شامل تھے۔اس کے علاوہ مشہور پاکستانی کوہ پیماہ اشرف امان بھی ان کے ساتھ تھے۔اشرف امان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے کے۔ٹو کی چوٹی پر اپنے قدم رکھے۔
میں پہلی مرتبہ کسی خاتون نے کے۔ٹو کو کامیابی1986 کے ساتھ سر کیا۔اس Polish خاتون کا نام *Wanda* تھا۔اور کے۔ٹو کو سر کرنے کے ٹھیک 8 گھنٹے بعد واپسی پر وہ کے۔ٹو کے انتقام کا شکار بن کر جان کی بازی ہار گئی۔یوں بھی کہا جاتا ہے کہ کے۔ٹو خواتین سے انتقام ضرور لیتا ہے۔
اس کے بعد مختلف ادوار میں مختلف ممالک سے لوگ آتےکچھ کامیابی سے کے۔ٹو کو سر کرتے رہے اور کچھ اس کے غضب کا شکار بنتے رہے۔ کے۔ٹو سے منسلک 3 حادثات کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور ان کو *Three Major Disaster* کا نام بھی دیا جاتا ہے۔پہلا حادثہ اگست 1986 میں پیش آیا جس میں 13 کوہ پیماہ اکٹھے کے۔ٹو پر مارے گئے۔دوسرا حادثہ 1995 میں رونما ہوا جب کے۔ٹو کو کامیابی سے سر کرنے کے بعد واپسی پر 6 کوہ پیما جان سے گئے۔تیسرا حادثہ اگست 2008 میں پیش آیا جب کے۔ٹو نے 11 ماہر کوہ پیماوں کی جان لی۔ان حادثات پر مختلف موویز بھی بن چکی ہیں۔